کوئی قضا اسے سمجھے، کوئی بلا جانے
نہ کی ہو جس نے محبت بھلا وہ کیا جانے!
جو اک نظر کو تری آپ سے سوا جانے
شبِ فراق بھی وہ وصل کا مزا جانے
نہ آرزو، نہ تمنا، نہ حسرت و اُمید
دلِ غریب کو کیا ہوگیا خُدا جانے
وہ جس کی عمر تلاشِ سکوں میں گزری ہو
بتاؤ کیسے نہ ہر سانس کو سزا جانے؟
کہیں کہیں سے کتابِ حیات دیکھی ہے
وہی پڑھے اسے جو خود کو با خُدا جانے
اُدھر زمانہ ہے، رسوائی سے ڈراتا ہے
اِدھر یہ دل کہ غمِ عشق کو خُدا جانے
کسی کی یاد کے سائے میں تھک کے بیٹھا ہوں
یہ سایہ جس کو میسر ہو، اور کیا جانے؟
ہوا ہے ایسا گرفتارِ آرزو سرور
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا جانے
Sunday, January 23, 2011
مجھے رات دن ۔۔۔۔ بس مجھے چاہتی ہو
مجھے رات دن ۔۔۔۔ بس مجھے چاہتی ہو
کہو نہ کہو مجھ کو ۔۔۔۔۔ سب کچھ پتا ہے
ہاں کروں کیا مجھے۔۔۔۔ تم بتاتی نہیں ہو
چھپاتی ہو مجھ سے، یہ تمہاری خطا ہے
مجھے رات دن ۔۔۔۔ بس مجھے چاہتی ہو
میری بیقراری کو ۔۔۔۔۔۔ حد سے بڑھانا
تمہیں خوب آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باتیں بنانا
نگاہیں ملا کے یوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا چین لینا
ستا کے محبت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں درد دینا
مجھے دیکھ کے ایسے، پلکیں جھکانا
شرارت نہیں ہے تو، پھر اور کیا ہے
مجھے رات دن ۔۔۔۔ بس مجھے چاہتی ہو
تمہیں نیند آئے گی ۔۔۔۔۔ اب نہ میرے بن
مجھے ہے یقیں ایسا، آئے گا اک دن
کھلی تیری زلفوں میں، سویا رہوں گا
تیرے ہی خیالوں میں، کھویا رہوں گا
کبھی غور سے، میری آنکھوں میں دیکھو
میری جاں تمہارا ہی ۔۔۔۔۔۔۔ چہرا چھپا ہے
مجھے رات دن ۔۔۔۔ بس مجھے چاہتی ہو
کہو نہ کہو مجھ کو ۔۔۔ سب کچھ پتا ہے
ہاں کروں کیا ۔۔۔۔ مجھے تم بتاتی نہیں ہو
چھپاتی ہو مجھ سے، یہ تمہاری خطا ہے
مجھے رات دن ۔۔۔۔ بس مجھے چاہتی ہو
کہو نہ کہو مجھ کو ۔۔۔۔۔ سب کچھ پتا ہے
ہاں کروں کیا مجھے۔۔۔۔ تم بتاتی نہیں ہو
چھپاتی ہو مجھ سے، یہ تمہاری خطا ہے
مجھے رات دن ۔۔۔۔ بس مجھے چاہتی ہو
میری بیقراری کو ۔۔۔۔۔۔ حد سے بڑھانا
تمہیں خوب آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باتیں بنانا
نگاہیں ملا کے یوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا چین لینا
ستا کے محبت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں درد دینا
مجھے دیکھ کے ایسے، پلکیں جھکانا
شرارت نہیں ہے تو، پھر اور کیا ہے
مجھے رات دن ۔۔۔۔ بس مجھے چاہتی ہو
تمہیں نیند آئے گی ۔۔۔۔۔ اب نہ میرے بن
مجھے ہے یقیں ایسا، آئے گا اک دن
کھلی تیری زلفوں میں، سویا رہوں گا
تیرے ہی خیالوں میں، کھویا رہوں گا
کبھی غور سے، میری آنکھوں میں دیکھو
میری جاں تمہارا ہی ۔۔۔۔۔۔۔ چہرا چھپا ہے
مجھے رات دن ۔۔۔۔ بس مجھے چاہتی ہو
کہو نہ کہو مجھ کو ۔۔۔ سب کچھ پتا ہے
ہاں کروں کیا ۔۔۔۔ مجھے تم بتاتی نہیں ہو
چھپاتی ہو مجھ سے، یہ تمہاری خطا ہے
مجھے رات دن ۔۔۔۔ بس مجھے چاہتی ہو
نہ فکر فردا نہ یاد ماضی
نہ فکر فردا
نہ یاد ماضی
نہ چین دل کو
نہ بے قراری
نہ حد سے گزرتا ہوا جنوں وہ
نہ بے کلی وہ پہلے جیسی
بس اک اداسی دھیمی دھیمی
بس اک خاموشی ہے بے کراں سی
بس اک بےنام سی الجھن ہے
بس اک بے درد سی تھکن ہے
جو زندگی کے ادھورے پن کو
حدوں سے آگے بڑھا رہی ہے
نہ یاد ماضی
نہ چین دل کو
نہ بے قراری
نہ حد سے گزرتا ہوا جنوں وہ
نہ بے کلی وہ پہلے جیسی
بس اک اداسی دھیمی دھیمی
بس اک خاموشی ہے بے کراں سی
بس اک بےنام سی الجھن ہے
بس اک بے درد سی تھکن ہے
جو زندگی کے ادھورے پن کو
حدوں سے آگے بڑھا رہی ہے
تمہاری بے وفائی نے مجھےبھی مار ڈالا ہے تمہیں بھی مار ڈالا ہے
تمہاری بے وفائی
تمہاری موت پر میں نے
کوئی نوحہ نہیں لکھا
اگرچہ اپنے ہاتھوں سے
تمہیں دفنا چکا ہوں میں
کوئی نوحہ نہیں لکھا
کہ دُنیا بھر کی نظروں میں
ابھی تک جی رہی ہو تم
مجھے معلوم ہے جانم
کہ میری موت پر تم بھی
کوئی نوحہ نہ لکھو گی
کہ دُنیا بھر کی نظروں میں
ابھی تک جی رہا ہوں میں
حقیقت تو مگر یہ ہے
کہ کب کے مر چکے ہیں ہم
تمہاری بے وفائی نے
مجھےبھی مار ڈالا ہے
تمہیں بھی مار ڈالا ہے
تمہاری موت پر میں نے
کوئی نوحہ نہیں لکھا
اگرچہ اپنے ہاتھوں سے
تمہیں دفنا چکا ہوں میں
کوئی نوحہ نہیں لکھا
کہ دُنیا بھر کی نظروں میں
ابھی تک جی رہی ہو تم
مجھے معلوم ہے جانم
کہ میری موت پر تم بھی
کوئی نوحہ نہ لکھو گی
کہ دُنیا بھر کی نظروں میں
ابھی تک جی رہا ہوں میں
حقیقت تو مگر یہ ہے
کہ کب کے مر چکے ہیں ہم
تمہاری بے وفائی نے
مجھےبھی مار ڈالا ہے
تمہیں بھی مار ڈالا ہے
اب کے سال پونم میں، جب تو آئےگی ملنے
اب کے سال پونم میں، جب تو آئےگی ملنے
اندھیری رات ہے سایہ تو ہو نہیں سکتا
یہ کون جو میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
ترکِ تعّلقات کو ایک لمحہ چاہئیے
ایک لمحہ، مجھے سوچنا پڑا
اب کے سال پونم میں، جب تو آئےگی ملنے
ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گذارے گے
دھڑکنیں بچھادیں گے شوق تیرے قدموں میں
ہم نگاہ سے تیری آرتی اتاریں گے
اب کے سال پونم میں، جب تو آئےگی ملنے
تو کے آج قاتل ہے، پھر بھی راحتِ دل ہے
زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تو
پست حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دیں گے
زندگی اِدھر آجا ہم تجھے گذاریں گے
اب کے سال پونم میں، جب تو آئےگی ملنے
آہنی کلیجے کو زخم کی ضرورت ہے
اُنگلیوں سے جو ٹپکے اُس لہو کی حاجت ہے
آپ زلفیں جاناں کے ہم سنواریئے سب
زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے
اب کے سال پونم میں، جب تو آئےگی ملنے
ہم تو وقت ہیں پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں
بیقرار لمحے ہیں، بےتھکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے، آئے یا نہیں آئے
جو ملے گا رستےمیں، ہم اسے پکاریں گے
اب کے سال پونم میں، جب تو آئےگی ملنے
چاندنی دسمبر کی
چاندنی دسمبر کی
رات اُس نے پوچھا تھا
تم کو کیسی لگتی ہے
چاندنی دسمبر کی
میں نے کہنا چاہا تھا
سال و ماہ کے بارے میں
گفتگو کے کیا معنٰی
چاہے کوئی منظر ہو
دشت ہو ، دسمبر ہو
جون ہو ، دسمبر ہو
دھڑکنوں کا ہر نغمہ
منظروں پہ بھاری ہے
ساتھ جب تمہارا ہو
دل کو ایک سہارا ہو
ایسا لگتا ہے جیسے
ایک نشہ سا طاری ہے
لیکن اس کی قُربت میں
کچھ نہیں کہا میں نے
تکتی رے گئی مجھکو
چاندنی دسمبر کی
رات اُس نے پوچھا تھا
تم کو کیسی لگتی ہے
چاندنی دسمبر کی
میں نے کہنا چاہا تھا
سال و ماہ کے بارے میں
گفتگو کے کیا معنٰی
چاہے کوئی منظر ہو
دشت ہو ، دسمبر ہو
جون ہو ، دسمبر ہو
دھڑکنوں کا ہر نغمہ
منظروں پہ بھاری ہے
ساتھ جب تمہارا ہو
دل کو ایک سہارا ہو
ایسا لگتا ہے جیسے
ایک نشہ سا طاری ہے
لیکن اس کی قُربت میں
کچھ نہیں کہا میں نے
تکتی رے گئی مجھکو
چاندنی دسمبر کی
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
آتا ہے جو طوفاں آنے دے، کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں خود بہتا ہوا ساحل آ جائے
اے شمع، قسم پروانوں کی، اتنا تو میری خاطر کرنا
اس وقت بھڑک کر گُل ہونا جب بانیِ محفل آ جائے
اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تم پہ میرا دل آ جائے
اے رہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں بس یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے
اس عشق میں جاں کو کھونا ہے، ماتم کرنا ہے، رونا ہے
میں جانتا ہوں جو ہونا ہے، پر کیا کروں جب دل آ جائے
ہاں یاد مجھے تم کر لینا، آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے
اے دل کی خلش چل یونہی سہی، چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
آتا ہے جو طوفاں آنے دے، کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں خود بہتا ہوا ساحل آ جائے
اے شمع، قسم پروانوں کی، اتنا تو میری خاطر کرنا
اس وقت بھڑک کر گُل ہونا جب بانیِ محفل آ جائے
اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تم پہ میرا دل آ جائے
اے رہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں بس یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے
اس عشق میں جاں کو کھونا ہے، ماتم کرنا ہے، رونا ہے
میں جانتا ہوں جو ہونا ہے، پر کیا کروں جب دل آ جائے
ہاں یاد مجھے تم کر لینا، آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے
اے دل کی خلش چل یونہی سہی، چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا
جب وہ کھلتے گلاب جیسا تھا
میں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسےجب وہ کھلتے گُلاب جیسا تھا
اُس کی پلکوں سے نیند چَھنتی تھی
اُس کا لہجہ شراب جیسا تھا
اُس کی زُلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا
اُس کا رُخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خال و خَذ اُس کے
وہ اَدب کی کتابِ جیسا تھا
بولتا تھا زبان خُوشبو کی
لوگ سنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
ساری آنکھیں تھیں آئنے اُس کے
سارے چہرے میں انتخاب تھا وہ
سب سے گُھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نُما سَراب تھا وہ
خواب یہ ہے کہ وہ " حقیقت تھا "
یہ حقیقت ہے کوئی خواب تھا وہ
دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صُورت سایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیندیں اُسی کی نذر ہُوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دِنوں میں اُسے
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑھتے تھے آنچلوں میں اُسے
میں نے دیکھا اُن دِنوں میں اُسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دُور کا فسانہ ہے
اُس کے میرے ملاپ میں حائل
اَب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب تو یوں ہے حال اپنا بھی
دشتِ ہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر اِن دنوں وہ کیسا ہے؟
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
تُم پھول بس چُھوا کرو اداس مت ہوا کرو
جلتے دِیے کے سامنے
جھونکا ہوا کا دیکھ کر
تُم کیوں اداس ہو گئے
موسم خِزاں کا دیکھ کر
تُم دُکھوں کے سوز کا
موسموں کے روگ کا
درد مت سہا کرو
اداس مت ہوا کرو
یہ درد ہیں حیات کے
کچھ رنگ کائنات کے
کچھ دُکھوں کی تیز بارشیں
کچھ پُھول ہیں نشاط کے
تُم پھول بس چُھوا کرو
اداس مت ہوا کرو
جھونکا ہوا کا دیکھ کر
تُم کیوں اداس ہو گئے
موسم خِزاں کا دیکھ کر
تُم دُکھوں کے سوز کا
موسموں کے روگ کا
درد مت سہا کرو
اداس مت ہوا کرو
یہ درد ہیں حیات کے
کچھ رنگ کائنات کے
کچھ دُکھوں کی تیز بارشیں
کچھ پُھول ہیں نشاط کے
تُم پھول بس چُھوا کرو
اداس مت ہوا کرو
وہ کچھ سنتا تو میں کہتا مجھے کچھ اور کہنا تھا
وہ کچھ سنتا تو میں کہتا مجھے کچھ اور کہنا تھا
وہ پل بھر کو جو رک جاتا مجھے کچھ اور کہنا تھا
غلط فہمی نے باتوں کو بڑھا ڈالا یونہی ورنہ
کہا کچھ تھا وہ کچھ سمجھا مجھے کچھ اور کہنا تھا
کمائی زندگی بھر کی اسی کے نام کیوں کر دی
مجھے کچھ اور کرنا تھا مجھے کچھ اور کہنا تھا
کہاں اس نے سنی میری ، سنی بھی ان سنی کردی
اسے معلوم تھا اتنا مجھے کچھ اور کہنا تھا
میرے دل میں جو ڈر آیا، کوئی مجھ میں بھی در آیا
وہیں اک رابطہ ٹوٹا ، مجھے کچھ اور کہنا تھا
وہ پل بھر کو جو رک جاتا مجھے کچھ اور کہنا تھا
غلط فہمی نے باتوں کو بڑھا ڈالا یونہی ورنہ
کہا کچھ تھا وہ کچھ سمجھا مجھے کچھ اور کہنا تھا
کمائی زندگی بھر کی اسی کے نام کیوں کر دی
مجھے کچھ اور کرنا تھا مجھے کچھ اور کہنا تھا
کہاں اس نے سنی میری ، سنی بھی ان سنی کردی
اسے معلوم تھا اتنا مجھے کچھ اور کہنا تھا
میرے دل میں جو ڈر آیا، کوئی مجھ میں بھی در آیا
وہیں اک رابطہ ٹوٹا ، مجھے کچھ اور کہنا تھا
Subscribe to:
Posts (Atom)