Sunday, January 23, 2011

کوئی قضا اسے سمجھے، کوئی بلا جانے

کوئی قضا اسے سمجھے، کوئی بلا جانے
نہ کی ہو جس نے محبت بھلا وہ کیا جانے!

جو اک نظر کو تری آپ سے سوا جانے
شبِ فراق بھی وہ وصل کا مزا جانے

نہ آرزو، نہ تمنا، نہ حسرت و اُمید
دلِ غریب کو کیا ہوگیا خُدا جانے

وہ جس کی عمر تلاشِ سکوں میں گزری ہو
بتاؤ کیسے نہ ہر سانس کو سزا جانے؟

کہیں کہیں سے کتابِ حیات دیکھی ہے
وہی پڑھے اسے جو خود کو با خُدا جانے

اُدھر زمانہ ہے، رسوائی سے ڈراتا ہے
اِدھر یہ دل کہ غمِ عشق کو خُدا جانے

کسی کی یاد کے سائے میں تھک کے بیٹھا ہوں
یہ سایہ جس کو میسر ہو، اور کیا جانے؟

ہوا ہے ایسا گرفتارِ آرزو سرور
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا جانے

No comments:

Post a Comment